September 3, 2024 10:19 AM

printer

وزیراعظم نریندر مودی برونائی اور سنگاپور کے تین دن کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی آج برونائی اور سنگاپور کے تین دن کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔ روانہ ہونے سے قبل اپنے بیان میں وزیراعظم نے یہ اعتماد ظاہر کیا ہے کہ اِن دونوں ملکوں کے اُن کے دورے سے برونائی اور سنگاپور نیز وسیع تر آسیان خطے  کے ساتھ بھارت کی ساجھیداری مزید مستحکم ہو سکے گی۔

جناب مودی نے کہا کہ مشرقی ملکوں سے رابطے بڑھانے کی بھارت کی پالیسی اور بھارت- بحر الکاہل خطے میں یہ دونوں ملک اہم ساجھیدار ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب جبکہ بھارت اور برونائی اپنے سفارتی تعلقات کے 40 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں، وہ برونائی کے سلطان حاجی حسن البلقیہ اور شاہی خاندان کے دیگر معزز ارکان کے ساتھ اپنی ملاقات کے منتظر ہیں، تاکہ تاریخی رشتوں کو نئی بلندی پر لے جایا جا سکے۔ جناب مودی نے کہا کہ وہ کَل سنگاپور جائیں گے اور وہاں کے صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے منتظر ہیں۔ وزیراعظم سنگاپور کی متحرک کاروباری برادری کے رہنماؤں سے بھی ملیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ سنگاپور کے ساتھ کلیدی ساجھیداری کو مزید مستحکم بنانے پر تبادلہ خیال کریں گے، خاص طور پر جدید طرز کی مینوفیکچرنگ، ڈجیٹل نظام اور پائیدار ترقی کے نئے اور ابھرتے ہوئے شعبوں میں اشتراک پر بات چیت ہوگی۔

نئی دِلی میں نامہ نگاروں کو جانکاری دیتے ہوئے وزارتِ خارجہ میں مشرقی امور کے محکمے کے سکریٹری جے دیپ مجمدار بتایا کہ وزیراعظم برونائی کے سلطان حاجی حسن البلقیہ کی دعوت پر برونائی جارہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ کسی بھارتی وزیراعظم کا برونائی کا یہ پہلا باہمی دورہ ہوگا۔ x

اپنے دورے میں وزیراعظم نریندر مودی باہمی تعلقات کے تمام تر پہلوؤں اور برونائی کے ساتھ اشتراک پر تبادلہئ خیال کریں گے اور تعاون کے نئے شعبے تلاش کرنے پر بھی بات چیت کریں گے۔ برونائی کے ساتھ بھارت کے قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں، جس میں دفاع، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، خلائی تکنیک، صحت، صلاحیت سازی، ثقافت اور عوام سے عوام کے متحرک رابطوں جیسے مختلف شعبے شامل ہیں۔ برونائی میں رہنے والے بھارت نژاد افراد کی تعداد تقریباً 14 ہزار ہے، جن میں ڈاکٹر اور اساتذہ کافی تعداد میں ہیں۔ بھارت کو اپنے خلائی پروگرام میں برونائی سے قابل قدر مدد ملی ہے اور اِس شعبے میں برونائی کے ساتھ تین مفاہمت نامے کیے جا چکے ہیں۔ دفاع کا شعبہ بھی باہمی اشتراک میں ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔

سب سے زیادہ پڑھا گیا۔

سب دیکھیں