امریکی سپریم کورٹ نے اس وفاقی قانون کو برقرار رکھا ہے جس کے تحت ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم Tiktok پر اس وقت تک ملک گیر پابندی عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جب تک کہ چین کی ملکیت والے اس سوشل میڈیا کو کسی امریکی کمپنی کو فروخت نہ کردیا جائے۔ یہ پابندی کل سے عائد ہوگی۔ کل اتفاقِ رائے سے یہ حکم جاری کیا گیا جس میں کانگریس اور محکمہئ انصاف نے حوالہ دیا کہ چینی کمپنی Byte dance کا پلیٹ فارم ٹک ٹاک قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ عدالت میں امریکی قانون سازوں نے دلیل پیش کی کہ اس App کو چینی کمیونسٹ پارٹی غلط پروپیگنڈہ اور صارفین کے ساتھ ہیرا پھیری کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔
عدالت نے ٹک ٹاک کے بیجنگ کے ساتھ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کیے جانے کو جائز قرار دیا۔
اس دوران ٹک ٹاک نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس App کو فروخت کیا جانا تجارتی اور قانونی دونوں طرح سے ہی ناقابل عمل ہے۔ 17 کروڑ امریکیوں کے ذریعے استعمال کیے جانے والا Tiktok کل سے امریکہ میں App اسٹورس میں ڈاؤن لوڈ کئے جانے کے لیے دستیاب نہیں ہوگا۔
Content تخلیقی کرنے والوں، اظہارِ خیال کی آزادی کے حامیوں اور شہری آزادی سے متعلق تنظیموں نے اس فیصلے کی مخالفت ظاہر کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پابندی عائد کیا جانا سینسر شپ کے مترادف ہے اور ایک پریشانی کن نظیر ہے۔
Tiktok پر ملک گیر پابندی عائد کرنے والوں میں اب بھارت کے ساتھ امریکہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ کئی دیگر ملک جیسے برطانیہ، آسٹریلیا، بیلجیم، کناڈا، فرانس اور نیدر لینڈس نے بھی سرکاری آلات پر اس ایپ کے استعمال پر بندش عائد کردی ہے۔ انھیں اندیشہ ہے کہ چینTiktok کو جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔