بنگلہ دیش میں کل مسلسل دوسرے دن اقلیتی ہندو فرقے کے ہزاروں لوگوں نے راجدھانی ڈھاکہ اور شمال مشرقی بندرگاہی شہر Chattagram میں بڑی احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ ڈھاکہ کے مرکزی حصے شاہ باغ میں ریلی کی وجہ سے تین گھنٹے سے زیادہ ٹریفک رک گیا۔ یہ لوگ ملک گیر سطح پر ہونے والی توڑ پھوڑ سے تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جن میں ان کے گھروں، کاروبار اور مندروں کو نشانہ بنایا گیا ہے ان کے مطالبات میں ان لوگوں کے خلاف تیزی سے مقدمات چلانے کے لیے خصوصی ٹربینول قائم کرنا جنھوں نے اقلیتوں پر مظالم کیے ہیں، اقلیتوں کے لیے پارلیمنٹ کی 10 فیصد نشستیں مختص کرنا، اور اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق قانون وضع کرنا شامل ہے۔ ہزاروں مسلم مظاہرین، جن میں طلبا بھی شامل تھے اقلیتوں کے حق میں ڈھاکہ میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے شامل ہوئے۔ وزیراعظم شیخ حسینہ کے استعفیٰ کے بعد ہندو فرقے کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کئی ہندو مندروں، گھروں اور کاروباری اداروں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور تشدد میں بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی سے وابستہ کم سے کم دو ہندو لیڈروں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کی حمایت کرنے والی ایک اہم تنظیمBangladesh Hindu Buddhist Christian Oikya Parishadنے اعلیٰ مشیر محمد یونس کے لیے ایک کھلا خط جاری کیا ہے جس میں 5 اگست کو شیخ حسینہ کی حکومت کے گرنے کے بعد سے 52 ضلعوں میں ظلم و زیادتی کے 205 واقعات کی تفصیل دی گئی ہے۔
اس دوران بھارت نژاد امریکی ممبران پارلیمنٹ نے بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہونے والے حملوں پر کانگریس میں سماعت کا مطالبہ کیا ہے۔